چغتائی پبلک لائبریری
تحریر: میاں وقارالاسلام
مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری میلسی سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر سردار پور جھنڈیر میں واقع ہے۔ یہ لائبریری تقریباً سوا سو سال پرانی ہے۔ یہاں کے منتظمِ اعلیٰ جناب میاں غلام محمد جھنڈیرسے چغتائی پبلک لائبریری کا تفصیلی تعارف ملا جنہوں نے مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری اور چغتائی پبلک لائبریری کے درمیان مشترکہ پروجیکٹ کی تفصیل بتاتے ہوئے چغتائی پبلک لائبریری کی سرگرمیوں کا بھی ذکر کیا۔
چغتائی پبلک لائبریری نے مسعود فیصل جھنڈیرلائبریری میں موجود نادرونایاب ذخیرہ کتب کو محفوظ کرنے اور ڈیجیٹل لائبریری کے ذریعے قارئین اور محققین تک مفت رسائی کا بیڑہ اُٹھایاہے۔اس کےلئے دنیاکے جدید ترین اسکینرزبُک آئی فائیووہاں پربھیجے گئے ہیں۔جن پر10 لوگوں پرمشتمل تربیت یافتہ عملہ دن رات کام کررہاہے۔جوکہ ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد نادرکتب کو اسکین کرکے آئندہ نسلوں کےلئےمحفوظ کرچکاہے۔اورتاحال کام جاری ہے۔
وقارِ پاکستان کے تعاون سے مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری کے کمیونیٹی ٹوورز بھی ہو تےرہے ہیں اور ممبرز کی اعزازی کتابیں بھی فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ مادرِ دبستانِ لاہور ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ جو کہ ادب سرائے انٹرنیشنل کی چئیر مین بھی ہیں اور وقارِ پاکستان کی کو فاؤنڈر بھی ہیں اور 50 سے زیادہ کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں، ان کی سرپرستی میں چغتائی پبک لائبریری کا وزٹ کیا گیا، ساتھی ممبرز میں جناب ابرار خان نیازی،سی ای او نیازی گروپ، محترمہ تسنیم کوثر صاحبہ،شاعرہ، ادیبہ، مصنفہ، میاں وقارالاسلام، پرنسپل کنسلٹینٹ مارول سسٹم، جناب عبیدالرحمٰن صاحب ، سی ای او ایکسپرٹ سسٹم، جناب کرنل جہانزیب خان نیازی، سی ای او ، تعلیمی بیٹھک شامل تھے۔
محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی نئی تصنیف نورِ فرقان منظوم مفہوم اور ان کی کلیات غزل ” منتھائے عشق” بھی چغتائی پبک لائبریری کے لیے پیش کی گئی ، اس کے علاوہ محترمہ تسنیم کوثر صاحبہ کی تصانیف “سرگوشی” اور” مجھے اُس دیس جانا ہے” بھی پیش کی گئیں۔ دیگر تصانیف میں محترمہ کنیز بتول کھوکھر کی تصنیف، دستکِ درِ مُقفّل اور جناب احمد فاروق صاحب کی تصنیف “نیور اینڈنگ وِرک” بھی پیش کی گئیں۔
چغتائی پبلک لائبریری کی ہیڈ محترمہ ریحانہ کوثر صاحبہ نےلائبریری آن ویل اور ہیومن لائبریری کے ساتھ ساتھ لائبریری کے دیگر پراجیکٹس کا بھی تفصیلی تعارف پیش کیا اور فیوچر کے پراجیکٹس کے حوالے سے بھی روشنی ڈالی۔ محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ اور دیگر معزز مہمانوں کو چغتائی پبک لائبریری کے مختلف سیکشنز کا وزٹ بھی کروایا گیا۔ ٹیم کی سرگرمیوں اور بھرپور تعاون پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر شہناز مزمل ، ابرار خان نیازی ، کرنل جہانزیب نیازی اور دیگر مہمانوں نے چغتائی پبک لائبریری کے مختلف پراجیکٹ کو خوب سراہا اور فیوچر بھرپور تعارون کی یقین دہانی بھی کروائی۔
وقارِ پاکستان کے حوالے سے میاں وقارالاسلام نے تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ہم اپنے ممبرز کے لیے گذشتہ 2 دہائیوں سے ایک ڈیجٹل پلیٹ فارم پر کام کر رہے ہیں جس پر ہمارے 40 سے زیادہ ممبرز کی 300 سے زیادہ کتابیں محفوظ ہیں، یہ فری بکس ریختہ اور درجنوں تعلیمی اداروں کی ای لائبریریز میں شامل کروائی جا چکی ہیں اور ہمیں خوشی ہو گی اگر انہیں چغتائی پبک لائبریری کے پلیٹ فارم پر بھی شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ ہمارے بہت سے ممبرز ہیں جنہیں یا تو پبلیشر ڈیجٹل کتابیں یا تو فراہم ہی نہیں کرتا یا پھر یہ کسی وجہ سے اسے حاصل نہیں کر پاتے، اور اگر خود سے سکین کرواتے ہیں تو تمام لکھنے والے اس کے اضافی خرچے کی وجہ سے یہ کام نہیں کر پاتے ۔
جناب اشرف فیضی صاحب (لائبریرین)نے ممبرز کے لیے کی فری ہائی کوالٹی بکس سکینگ سروسز کی آفر بھی کر دی،اور اس سہولت سے وہاں پر موجود کچھ ممبرز اور ان کے جاننے والے بھی فوری طور پر مستفید ہو چکے ہیں۔
وقارِ پاکستان اور ادب سرائے انٹرنیشنل کی پوری ٹیم اس کام کی افادیت کو سمجھتی ہے اور اس کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔ قلمکاروں کو اس سہولت سے ضرور فائدہ اُٹھانا چاہیے، کتاب کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے اور لوگ کتاب سے پڑھنا پسند بھی کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اگر آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہیں ، یا آپ کوئی تحقیقی کام کرنا چاہتے ہیں، اور آپ کے مطلب کی تمام کتابیں اگر ہارڈ فام میں موجود نہیں ہیں اور کہیں سے سافٹ فام میں آپ کے پاس پہنچ جاتی ہیں تو شاید یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ دوسری صورت میں اگر بہت زیادہ کتابیں خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے اور آپ کو مفت میں بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے ، اگر آپ پڑھنا چاہتے ہیں ، تو اس کی اہمیت ایک پڑھنے والا ہی سمجھ سکتاہے۔
یہاں میں منتظمِ اعلیٰ مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری، میاں غلام محمد جھنڈر صاحب کے خوبصورت الفاظ ضرور کوٹ کرنا چاہوں گا کہ “یہ ایک رائل ہابی، یا شاہی مشغلہ ہے، یہ ایک بڑا کام ہے ۔ پرانے وقتوں میں یہ کام راجے مہاراجے کرواتے تھے، یا پھر یہ کارِ سرکار ہے، اسے حکومتیں کرواتی ہیں۔کتابیں اکٹھی کر لینا، اپنے شوق کے مطابق کچھ خرید لینا یہ ایک اور بات ہے، مگر اسے اس طرح سے ذخیرہ کرنا کہ لوگ اس سے دور دور سے پڑھنے کے لیے آئیں ، ان پر تحقیق کریں اور ان سے مستفید ہوں یہ ایک مختلف کام ہے۔ یقینا چغتائی پبک لائبریری جو کام کر رہی ہے یہ ایک منفرد کام ہے۔