تصنیف: انتہائے عشق، کلیاتِ حمد و نعت
شاعرہ: ڈاکٹر شہناز مزمل
تحریر: میاں وقارالاسلام
سورج کے سامنے چراغ رکھنا، شاید اس بات میں بھی کہیں ایک تواز ن تو نظر آتا ہے، چراغ چاہے چھوٹا اور ناتواں سہی، اس کی روشنی تقریبا نہ ہونے کی قریب ہی سہی، مگر خوب اندھیری راتوں میں چھوٹا سا چراغ بھی اپنی اہمیت تو بتا ہی جاتا ہے۔
ایک سخن سے ناآشنا طالب علم کا اپنے بہترین سخن شناس استاد کی نئی نئی اوربے مثال تخلیقات پر رائے پیش کرنا، شاید ایک ایسے چراغ کی ہی مانند ہوتا ہے، جو چراغ سالوں سے بجھا پڑا ہو، اور اس کے اندر سے تیل کا لمس بھی اُڑ چکا ہو، اور اس کے آس پاس کہیں راکھ کا نام و نشان بھی نہ ہو۔ مٹی کا بنا ہوا ، ایک بے نور ، لاعلم اورمکمل طور پر خالی چراغ ، جو ایک طرف تو یہ خواب دیکھتا ہے کہ کبھی کسی کے لیے روشنی بن پائے گا اور دوسری طرف اپنی تحریروں میں اپنے خالی پن کو بھی نہ چاہتے ہوئے بیان کر ہی جائے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جب میں ڈاکٹرشہناز مزمل صاحبہ کی کسی نئی تخلیق پر نظر دوڑاتا ہوں تو ایک طرف تو ان کی تخلیق میرے اندر نئے خواب اور نئی اُمنگیں جگاتی ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی پُر لطیف کیفیت ساتھ چلنے لگتی ہے۔ اور دوسری طرف جب میں اس پُر لطیف کیفیت کو بیان کرنے لگتا ہوں تو میرا خالی پن بھی میرے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ بہت سے ایسے سوالات جنم لیتے ہیں جن کے میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتے۔ پھر میں استاد کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ پھر کچھ نیا سیکھنے اور سمجھے کو ملتا ہے۔ پھر تھوڑا سا خالی پن کم ہونے کی کیفیت محسوس ہوتی ہے تو قلم اپنے آپ چلنے لگتا ہے۔ پھر یہ قلم کیا لکھ لیتا ہے کیسے لکھ لیتا ہے ، جاتے جاتے پھر اسی طرح کے سوالات رہ جاتے ہیں۔
مجھ سے کسی نے پوچھا کہ سکون کیا ہوتا ہے، تو میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ مجھے بتائے کہ کون سے سکون کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے، وہ سکون جسے انسان اپنے لیے سکون سمجھتا ہے اور پھر اس میں مگن ہو جاتا ہے یا پھر وہ سکون جسے اللہ تعالیٰ سکون کہتا ہے اور پھر انسان اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے رستے پر چلتا ہے اور حقیقی سکون کو حاصل کرتا ہے۔
انسان کو دولت، شہرت، عورت اور اپنی خود غرض خواہشات کی تسکین میں بھی سکون مل سکتا ہے مگر اس سکون کا سکونِ کامل سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں۔ سکونِ کامل تو اللہ کے ذکر کے بغیر ناممکن ہے۔ مگر عام انسان کے لیے سکونِ کامل کا مطلب سمجھنا شاید اتنا آسان نہیں۔ مگر جو لوگ علم رکھتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ،وہ سکونِ کامل کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور پھر یہی سمجھ بوجھ اسے ایک منفرد، بے مثال اور باوقار انسان بناتی ہے۔ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے، ہاں وہ انسان یقینا خطا کا پتلا ہے جسے سکونِ کامل کا مطلب معلوم نہیں ، وہ گناہ پر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتا۔ جو لوگ نیکوں کی طرف لپکتے ہیں اور گناہوں سے اپنے آپ کو الگ کر لیتے ہیں وہ خطا کے پتلوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں اور معاشرے میں اپنا انتہائی مثبت کردار ادا کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میرا ذکر دلوں کی بیماریوں کی شفا ہے۔ تو جو رجوع کرتا ہے یقینا اس کے دل کا مرض کو دور کر دیا جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ کے ذکر سے اپنے دلوں کو منور کرتے ہیں ، ان کی زباں ذکرِ الہیٰ اور ذکرِ محمدی کے لیے چن لی جاتی ہے۔ عشق اور جنوں کی باتیں تو عشق اور جنوں سے ہی نکلتی ہیں، یونہی ادھر ادھر کی باتوں میں عشق اور محبت کے کلام رواں نہیں ہوتے اور نہ ہی پُر خلوص کلمات زبان پر آتے ہیں۔ جو بات دل سے نکلتی ہے یقنا خاص اثر رکھتی ہے۔
ذاتِ الہیٰ پر لکھنا ، اور ذاتِ محمدی پر لکھنا، اور بار بار لکھنا اور بے مثال سے بے مثال لکھنا ، بغیر عشق اور جنوں کے اس راہِ سخن کی خاک بھی کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعے گذشتہ کئی برسوں سے وقتا فوقتا منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ اپنی تمام حمدیہ اور نعتیہ تخلیقات کو ایک جگہ اکھٹا کرنا ،یعنی سمندر کو ایک کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے۔ عشقِ الہیٰ اور عشقِ محمد کی تڑپ رکھنے والوں کے لیے انتہائے عشق ، کلیاتِ حمد و نعت ایک بے مثال کاوش ہے۔
انتہائے عشق ، کلیاتِ حمد و نعت، ڈاکٹر شہناز مزمل کی بہترین اور منفرد تخلیق ، آج اپنے آپ کے لیے خود بہت کچھ بول رہی ہے۔ یہ عشق اور جنوں کی ایک طویل داستان ہے جو یقینا پڑھنے والوں کے دلوں کو روشن کرے گی اور ادب کی دنیا میں ایک سنگِ میل ثابت ہو گی۔
ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کے عشق کا سفر ابھی جاری ہے، اور ان کے نقشِ پا پر میری مسافت بھی، میں منتظر رہوں گا کہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ سے ان کا عشق اور جنوں ابھی اور کیا کیا کرواتا ہے۔ ایک طرف تو ڈاکٹر شہناز مزمل کی پور نور تخلیقات سے روشنی پر روشنی ہو رہی ہے اور دوسری طرف یقینا طلب رکھنے والوں کی طلب بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کے لیے دعائیں اور نیک خواہشات۔ اللہ انہیں صحت اور ہمت دے اور ان کا یہ پُر نور سفر یونہی جاری رہے۔ آمین ۔۔۔۔۔۔۔ دعا گو
میاں وقارالاسلام
پرنسپل کنسلٹینٹ ، مارول سسٹم
فاؤنڈر، وقارِپاکستان لیٹریری ریسرچ کلاؤڈ
ایڈوائزر، ادب سرائے انٹرنیشنل
www.marvelsystem.com | www.waqarpk.com | www.adabsaraae.com