”یہ بڑے نصیب کی بات ہے”
ڈاکٹر شہناز مزمل سے میری پہچان دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ محبت و یگانگت کے اس طویل سفر میں ڈاکٹر شہناز مزمل کی شخصیت ایک ہشت پہل ہیرے کی مانند جگمگا جگمگا کر ہماری دوستی کی سلطنت کو خیرہ کرتی رہی فرق صرف یہ رہا کہ ہیرے کا ہر عکس ایک جیسا ہی چمکتا ہے مگر شہناز مزمل کی تہہ درتہہ شخصیت کے پہلو کے چمکنے کا اندازاوررنگ مختلف رہا وہ کبھی قادرالّکلام شاعرہ کی صورت میں نظر آئیں اور کبھی ایک نثر نگار کبھی سفرنامہ لکھ رہی ہیں اور کبھی کالم نگاری میں معاشرتی مسائل کا بھرپور ادراک پیش کر رہی ہوتی ہیں۔
نعت گوئی کا وردان یقینا انہوں نے نسبتِ سادات صلی اللہ والہ وسلم سے ورثہ میں پایا کہ وہ عشقِ خدا اور عشقِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ڈوبی رہتی ہیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ
آقا تیری کنیز ہو جاؤں
تیری گلیوں میں آکے کھو جاؤں
من کی آنکھوں سے دیکھتی ہوں تجھے
کاش میں آنکھ آنکھ ہو جاؤں
حقیقتاً وہ آنکھ آنکھ ہی ہوگئی ہیں۔ تلاشِ ذات کے سفر میں جادئہ عرفاں پر پا بجولاں چلتے ہوئے یقیناً مشکل مقامات آئے ہوں گے اسی لئے تو وہ کہہ اٹھیں کہ:
کھڑی ہوں عشق سمندر کے میں کنارے پر
سفینہ موجوںسے باہر وہی اچھالے گا
جب سفینہ موجوں سے باہر نکلا تو دنیا کی سعادتیں برکتیں عزتیں ان کی جھولی میں آگریں۔ تہذیب و شائستگی، امن، محبت، انسان، دوستی کا درس دیتے ہوئے جہاں انہیں” نازِ پاکستان ”اور ”مادرِ دبستانِ لاہور” جیسے باعزت خطابات سے نوازا گیا وہیں اپنے نام مزمّل کی لاج رکھتے ہوئے اللہ ربّ الّعزت اور ان کے حبیب کے انوار سے پھوٹنے والی روشنیوں نے انہیں ”نورِ فرقان” تک پہنچنے کا راستہ دکھا دیا اس لئے تو وہ کہہ رہی ہیں کہ؛
چھپایا تو نے جمال و جلال پردے میں
جمال ڈھونڈنے والا کمال میں نے کیا
انہوں نے جمال کچھ یوں تلاش کیا کہ شب و روز کی محنت ایک دہائی سے زیادہ عرصے کی ریاضت سے انہوں نے قرآن و فرقان کا منظوم و مفہوم ”نورِ فرقان” کے نام سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ
ایں سعادت بزور بازو نیست
کیونکہ جب تک اس مالک اور خالق کا کرم اور اس کا فضل شامل حال نہ ہوتو لکھنا تو دور کی بات ہے نہ سوچ کی گرہ کھلتی ہے اور نہ ہی قلم اٹھانے کی تو فیق نصیب ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ قلم ہے جس کی پیدائش کا منبع نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اور اس قلم نے عرش پر کلمہ لکھنے میں چار سو برس لگا دیے تھے اور اس کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک لکھتے ہوئے ہیبت خدا جل جلالہ سے قلم تھرا اٹھا اور اس کے منہ پر ایسا شگاف مسنون جاری ہواجو قیامت تک رہے گا۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ قرآن پاک کی منظوم ومفہوم ترجمہ نگاری کرنے والی یہ پہلی خاتون ہین اس عظیم کام پر میں انہیں بے حد مبارکباد پیش کرتی ہوں اور اس بات پر فخر کرتی ہوں کہ مجھے بھی شہنازمزمل سے کچھ نسبت ہے۔
ان کاموں کے باوجود شہناز مزمل میں عجز و انکساری اور کسرِ نفسی عروج پر ہے۔ رنگ برنگی بولیاں بولنے والے حاسدین کی موجودگی میں اس کام کا پایہ تکمیل تک پہنچنا بلا شبہ اس کُن فیکون والے کا فضل ہی تو ہے جیسا کہ وہ خود کہہ رہی ہیں کہ
”یہ ترجمہ نہیں نہ میں اس کی اہل ہوں بس یہ منظوم و مفہوم ہے اسے میری ایک عاجزانہ کاوش کہہ سکتے ہیں”
میں بھی یہی کہہ رہی ہوں کہ شہناز مزمل کے اس کام پر کوئی تبصرہ یا رائے دینا میرا منصب نہیں ہے میری کیا وقعت میری کیا مجال کہ میں اس پر رائے زنی کروں بس اتنا کیا کم ہے کہ شہناز مزمل نے مجھے بہت محبت سے کچھ لکھنے کو کہا اور میں باوضو ہوکر تبرکاَ اس قافلے میں شامل ہوگئی۔
جنہوں نے اس عظیم فریضے میں ان کی مدد اور رہنمائی کی ہے میں دعا گو ہوں کہ یہ کام شہناز مزمل کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کی بخشش کا وسیلہ بھی بن جائے۔ (آمین) آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
اور شہناز تو بڑے نصیبوں والی ہے۔ اللہ پاک ان کا اقبال اور عزت و تکریم دونوں جہانوں میں انشاء اللہ بلند رکھے۔ ڈھیروں دعائیں اور پیار۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل MBE