ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کے تحریر کردہ مختصرمنظوم مفہوم
قرآن مجید ”نور فرقان” پر تبصرہ
قرآن مجید فرقان حمید اللہ تعالیٰ کا آخری الہامی کلام ہے جو اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل ہوا۔ یہ کلامِ الٰہی اپنی جامعیت، کاملیت اور تاریخیت کے مطابق قیامت تک جن و انس کے لیے مکمل سرچشمہء ہدایت ہے۔ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرما دیا کہ جملہ جن و انس جمع ہو کر بھی اس جیسی ایک آیت بھی نہیں تحریر کر سکتے اسی طرح اس عظیم کلام کی وسعت معنویت اور جامعیت کو کو ئی اور زبان اور کوئی اور مفسر و شارح کسی ایک مضمون میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس طرح سے علما کرام نے مفسر قرآن مجید میں لازم موجود ہونے والی شرائط و آداب کو مفصل بیان کر دیا ہے نیز قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کے آداب و شرائط بھی متعین ہیں۔ مفسرِ قرآن کے لیے علومِ قرآن، علومِ حدیث، علومِ فقہ، تاریخِ اسلام اور عربی زبان وغیرہ پر عبور ہونا لازم ہوتا ہے۔ مفسر کا پابند شریعت ہونا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح ترجمہ و تفسیر قرآن پاک کو تحریر کرنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ڈاکٹر شہناز مزمل کا یہ منظوم کلام ” نور فرقان” نہ تو ترجمہء قرآن پاک ہے اور نہ ہی تفسیرِ قرآن ہے بلکہ یہ اردو کے مستند تراجم قرآن پاک سے مستفید مفہوم کی منظوم شکل میں تحریر ہے جو قرآنِ پاک سے شاعرہ کے لگاؤ اور گہری محبت کا اظہار ہے۔ میرے پیش نظر اس منظوم مفہوم کو اردو کے مستند تراجم قرآن کے مطابق ہو نے کا جائزہ لینا تھا تاکہ اس میں کوئی سطر ایسی نہ رہ جائے جو قرآن پاک کے مفہوم سے متصادم ہو اور شاعرہ اور ان کے قارئین کو کسی غلطی میں مبتلا کردے۔ یہ بلا شبہ ایک بڑی ذمہ داری تھی جو لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی سابقہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فرخندہ منظور صاحبہ نے مجھے سونپی تھی۔ یہ کام جس باریک بینی کا تقاضا کرتا تھا اس کے لیے طویل وقت درکار تھا ۔ میں نے اس کام میں اپنے ساتھ اپنی کئی ساتھیوں اور طالبات کو شریک ہونے کی دعوت دی مگر کوئی بھی وقت نہ نکال پایا سوائے ڈاکٹر فوزیہ فیاض کے۔ ڈاکٹر فوزیہ گذ شتہ کئی سالوں سے قرآن پاک کا ترجمہ پڑ ھا رہی ہیں۔ اس کام کو کرنے کے دوران ان کے پیش نظر بنیادی طور پر مولانا فتح محمد جالندھری ؒ کا ترجمہ قرآن رہا ہے۔ جب کہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ نے جن تراجم سے استفادہ کیا ان میں مولانا محمد تقی عثمانی کا ترجمہء قرآن تفسیر احسن الّکلام اور محترمہ نگہت ہاشمی صاحبہ کا ترجمہ قرآنی شامل ہے۔ میں نے اور میری ساتھیوں نے ” نورِ فرقان” کے حصے آپس میں تقسیم کر رکھے تھے لیکن کسی نے بھی اپنے حصے کا کام مکمل کرکے واپس نہ کیا سوائے ڈاکٹر فوزیہ کے اور پھر میں نے انہیں درخواست کی کہ وہی اس کام کو مکمل کریں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ سعودی عرب میں مقیم تھیں۔ ان کے واپس آنے تک ڈاکٹر فوزیہ ” نورِ فرقان ” کو چیک کرنے کا کام اپنے تئیں مکمل کر چکی تھیں۔ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ جب لاہور تشریف لائیں تو ان کی ملاقات ڈاکٹر فوزیہ سے کرا دی گئی اور پھر انہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کے ساتھ مل کر با لتفصیل ” نور ِفرقان ” کی اصلاح و درستگی کا کا م بے حد ذوق وشوق اور تیزی سے مکمل کر لیا۔ اس وقت ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ جس سرور، وارفتگی اور اخلاص کا مظہر بنی ہوئی تھیں وہ لائق دید تھا۔جس طرح انسان کا ہر کام ہر وقت اصلاح طلب ہوتا ہے اس طرح ”نورِ فرقان ”بھی یقینا مزید بہتری کا حق دار رہے گا اور اس کو پڑھنے والوں کو عام دعوت ہو گی کہ وہ اگر اس میں کہیں کوئی ایسا مقام پائیں جو درستگی اور بہتری کا تقاضا کرتا ہو تو ضرور رہنما ئی کریں۔
”نورِ فرقان” کواس بنیاد پرمکمل کیا گیا ہے کہ اس میں قرآن پاک کی تمام سورتوں کا مختصر مفہوم منظوم کیا گیا ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا مفہوم یوں منظوم کیا گیا ہے:
ہے اللہ کے نام سے ابتدا
وہ رحمٰن ہے، رحمت بے بہا
سورہ فاتحہ کے مفہوم کا آغاز یوں ہوتا ہے:
سب عالم کا مالک و خالق ہے رب
ہے زیبا اسی کو ہی تعریف سب
یہ وزن تقریباً زیادہ کلام میں برقرار رہا ہے۔ سورہ مائدہ کی ابتدائی آیات کا مفہوم جو لکھا اسے دیکھیے:
جو مومن ہے وہ عہد پورا کرے
جو سچ ہے وہ کہتے ہوئے نہ ڈرے
دیکھیے سورہ النحل:
نہیں جانتے تم وہ کیا کیا کرے
وہ رحمت سے دامن تمہارا بھرے
اسی طرح سورہ الناس تک چلے جائیے:
پناہ دیجیے مانگتا ہوں پناہ
جو لوگوں کا رب اور ہے بادشاہ
اس طرح لگ بھگ بارہ سو صفحات میں سے کسی کسی سورت کو ترجمے کے قریب تر کرنے کیلئے اوزان میں ترمیم بھی کی گئی ہے جو اس کے منظوم مفہوم کو مؤثر بناتی ہیں۔ جو اب ڈبل کالم میں 500 صفحات پر مبنی ہے۔اس حوالے سے تو اس مجموعہ” نورِ فرقان” پر اردو ادب کے ماہرینِ علم ہی تبصرے کا حق ادا کریں گے۔البتہ تمام مضامین قرآن اس میں شامل نہیں ملیں گے نہ ہی اس کا دعویٰ ہونا چاہیے۔کیونکہ قرآن پاک کے تمام مضامین اور موضوعات کا احاطہ کرنے میں کثیر ضخیم جلدیں بھی کم ہو جاتی ہیں۔
قرآن مجید اپنی عظمت میں یکتا کلام ِالٰہی ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے سورہ حشر میں فرمایا ہے:
لَوْ أَنْزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَرَأَیْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ ج وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (۲۲)
ترجمہ:”اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ خدا کے خوف سے دبا اور پھٹا جاتا ہے اور یہ باتیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔”
یہ اپنے مفہوم کے ساتھ سینہ آدم میںاگرسماجائے تو ممکن نہیں کہ وہ اس پر ایمان نہ لائے۔پھر بھی کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو ایمان کی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔فی زمانہ تلاوت قرآن پاک سے مسلمانوں کی دوری بھی بڑھ گئی ہے بالخصوص نوجوانوں میں اس کا شوق کم ہو گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ نوجوانوں میں قرآن پاک کی عظمت کے صحیح شعور کا نہ ہونا بھی ہے۔ اس بنیاد پر قرآن پاک کے مفہوم کو منظوم مجموعہ میں شائع کرنے کی کاوش ضرور فائدہ مند ہو گی۔ ڈاکٹر شہناز مزمل کی شاعری کو پسند کرنے والے افراد کی تعداد کثیر ہے اور وہ ان کی شاعری کی خصوصیات سے بخوبی واقف ہیں۔ان کے لیے ڈاکٹر صاحبہ کی طرف سے وہ عظیم تحفہ ثابت ہو گا جو انہیں ڈاکٹر صاحبہ کا مزید گرویدہ کر دے گا۔قرآن پاک سے ان کی گہری محبت کی گواہی دیتا ہوا یہ منظوم مفہوم بقول ڈاکٹر شہناز مزمل، اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ کام ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کے لیے صدقہء جاریہ بن جائے اور بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہو۔ اس میں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اصلاح کرنے کی توفیق کے ساتھ معاف فرمائے۔ آمین
پروفیسر ڈاکٹر محسنہ منیر
شعبہئِ علومِ اسلامیہ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی لاہور