معاشرے کی امین
عقل وشعور ، فہم و فراست اور ذہانت و فطانت اللہ رب العزت کی طرف سے ودیعت کی جانے والی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔شاعری سے شغف رکھنے والے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کائنات کی حقیقتوں کو دروں بینی سے دیکھنے والے غرض اپنی ذات کے اندرسفر کرنے کا جنون رکھنے والے افراد ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ شاعر اور ادیب خدا تعالیٰ کے چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ان لوگوں کو اگر معاشرے کا پیغمبر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ایسے افراد جب سوزِ یقین کا جھومر اپنی پیشانی پر سجا کر نکلتے ہیں تو اللہ رب العز ت انہیں ایسا کام کرنے کی توفیق بخشتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
ــــڈاکٹر شہناز مزملــ دنیائے ادب کا وہ معتبر نام لے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی کی تاریخ ان کے بغیر مکمل ہوسکے ۔ ناممکن ہے۔۴۴ کتابوں کی اس مصنفہ کی تربیت بھرپور شاعرانہ ماحول میں ہوئی ۔ ان کے والد حشر القادری نامور شاعر تھے۔اس طرح انہیں گھر میں ہی شاعرانہ فن کی تہذیب و ترتیب کا شاندار موقع میسر آیا۔سفرِعشق کا آغاز تو انہیں خود معلوم نہیں،کب ہوا؟جو انہیں جادہٗ عرفان تک لے گیا ۔منتہائے عشق کی خواہش انہیں عشقِ مزمل تک لے آئی۔ اس طرح بچپن سے شروع ہونے والا یہ سفربچپن سے بہت آگے کی منازل طے کرتا ہوانہیںنور فرقان تک لے آیا ۔نور فرقان کے نام سے قرآن کریم کامنظوم مفہوم لکھ کر بلاشبہ ڈاکٹر شہناز مزمل نے اردو ادب اور قرآن کریم کی بھرپور خدمت کی۔کیونکہ قرآن کریم کا منظوم مفہوم لکھنے کی ذمہ داری کو قبول کرنا اور تین سال کے مختصر عرصے میں پورے قرآن کے معانی کو اشعار کی صورت دے دینا ۔ انتہائی نازک بھی ہے اور مشکل بھی۔
لیکن قرآن کریم کی تفسیر جیسے اہم موضوع پر قلم اٹھانابہت دشواراس لئے ہے کہ یہاں ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ الفاظ کے بنائو سنگھار میں قرآن کے مضامین کے تقدس کو ٹھیس نہ لگ جائے۔مگر ڈاکٹر شہناز مزمل نے قرآن پاک کا منظوم مفہوم لکھنے کا بیڑہ اٹھایا اور جس خوبصورتی سے اس کام کو مکمل کیا لائق تحسین ہے۔اور اس بات کا منہ بولتا ثبو ت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انتہائی ستھرے ذوق اور قابلِ رشک ذہانت سے نوازا ہے ۔ ان کے شاعرانہ ذوق کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب وہ لکھنے کا ارادہ کرتی ہیں تو الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یوں تو ہر زمانے میں ایسے راست باز لوگ رہے ہیں جنہوں نے دین و شریعت اور تفسیر و حدیث جیسے اہم موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے ۔مگر قرآن کا منظوم مفہوم ۔۔۔۔یہ وہ مقام ہے جہاں فصاحت کی زبان گنگ اور اور بلاغت کی حواس خبط ہوجاتے ہیں۔کیونکہ کسی خاص صنعت کی پابندی کے ساتھ کوئی عام ادبی تحریر لکھنا اتنا دشوار نہیں۔
وہ ایک بھر پور شخصیت اور خوبصور ت مزاج کی مالک ہیں۔ان کے چہرے پر ہر وقت بکھری مسکراہٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نہ صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والی خاتون ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق سے بھی بے پناہ محبت کرتی ہیں۔ اپنی معزز استاد ڈاکٹر محسنہ منیر کے ساتھ ان سے ملا قات کا شرف حاصل ہوا۔کچھ خاص گفتگو تو نہ ہوئی مگر ان کے رکھ رکھائو ، ملنساری اور مشفقانہ رویے سے بہت متاثر ہوئی۔اور واپسی پر گاڑی پر بیٹھتے ہی ڈاکٹر محسنہ منیر کا ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔(مس بہت شکریہ)کس خوبصو رت شخصیت سے ملوا دیا۔ گھر ابھی پہنچی ہے تھی کہ فون کی گھنٹی بجی ڈاکٹر شہناز مزمل کی خوبصورت آوازنے حیران کر دیا۔تسنیم آپ خیریت سے پہنچ گئی؟ پہلی ہی ملاقات کے بعد کسی ایسی شخصیت کا نام لے کر مجھ جیسی احقرکو مخاطب کرنا میرے لیے حیران کن بھی تھا اور خوش آئند بھی ان کے اس عمل سے اس قدر متاثر ہوئی کہ ان سے ایک ہی دفعہ کی ملاقات ان کے درِشفقت پر بار بار جانے پر مجبو ر کرتی رہی۔
ٹیلی فون پر ان سے کئی دفعہ کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان راست باز شخصیت میں سے ہیں جن پر اللہ رب الّعزت کا خاص فضل ہوتا ہے۔ اور نورِ فرقا ن کو پڑھ کر یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قرآن کریم کا منظوم مفہوم لکھنے کا داعیہ ڈاکٹر شہناز مزمل کے دل میں اس لئے پیدا ہوا کہ وہ اللہ کے کلام قرآن کریم سے بے پناہ محبت کرتی ہیں ان کے کام کی رفتار ، ادب و احتیاط کی رعایت،اشعار کی پختگی اور الفاظ کی اثر انگیزی سے اندازہ کی جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف اردو شاعری میں بحیثیت شاعرہ منفرد مقام رکھتی ہیں ۔ ان کا انداز ِ تحریر عالمانہ، عارفانہ، ادیبانہ بلکہ عاشقانہ ہے۔اور نورِ فرقان کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک خصو صیت یہ ہے کہ ہر سورۃ کے مضامین ذکر کرنے کے بعد انتہائی خوبصورت اور منظم الفاظ کو اشعار کی صورت میں باعث ِ عزت و شرف بھی ہے اور موجب شکردامتنان بھی۔اور ادبی ذوق رکھنے والے قارئین کے لیے یہ تحریرایک خوبصورت خزینہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر شہناز مزمل کی اس کاوش کو قبول کر کے اس کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین